یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اموات کا سب سے بڑا سبب دل کی بیماریاں ہیں۔ اس کے بعد ایک اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ آج کل مغربی دنیا میں دل کے امراض میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں مذکورہ بیماریوں کے خلاف موثر احتیاطی تدابیر اور معالجاتی اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عوارض قلب اور وقف الدم (خون کی سپلائی میں کمی) کے واقعات میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس صورت حال کے سنگین معاشرتی و معاشی مضمرات شعبہ طب کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔ وقف الدم یا خون کی سپلائی میں کمی کا صحیح سبب ابھی معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم غیر متحرک اور کاہلی وتن آسانی کی زندگی دل کی شریان کرونری (Coronary) کے ورم کا باعث بنتی ہے جس کا حتمی نتیجہ حرکت قلب کی بندش کی صورت میں نکلتاہے۔ جسمانی ورزش وقف الدم کی ابتدائی اور ثانوی روک تھام میں زبردست کردار ادا کرتی ہے۔
ورزش کے اثرات
ورزش خواہ کسی بھی درجے یا کسی بھی شکل میں کی جائے جسم میں آکسیجن کی طلب کو بڑھاتی ہے۔ آکسیجن کی اس بڑھی ہوئی طلب کو پورا کرنے کیلئے دل کو جسم کے گردشی نظام میںزیادہ خون پمپ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے میں نبض کی رفتار اور دل سے پمپ ہونے والے خون میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ورزش کی شروعات میں دل کا کام بڑھ جانے کی وجہ سے کچھ بے چینی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں دل کی دھڑکن قدرے تیز اور سانس اکھڑنے کی شکایت لاحق ہو سکتی ہے تاہم ورزش میں باقاعدگی آنے سے یہ علامات خود بخود ختم ہو جاتی ہیں اور دل جسم کی طرف سے آکسیجن کی زیادہ طلب کا عادی ہو جاتا ہے اور جسمانی نظام پر کسی قسم کا دباﺅ ڈالے بغیر اس کی بڑھی ہوئی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس طرح ورزش شروع کرنے کے بعد دل کی دھڑکن تیز ہونے میں پہلے سے کچھ زیادہ وقت لگتا ہے۔ ورزش کی شروعات میں نبض کی رفتار میں اضافہ کے علاوہ سانس اکھڑنے کی شکایت بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پھیپھڑوں کو گردش نظام میں زیادہ آکسیجن سپلائی کرنا پڑتی ہے۔ شروع میں سانس پھول سکتی ہے۔ سانس آواز کے ساتھ اور مشکل سے آتی ہے۔ تاہم ورزش میں باقاعدگی آنے کے ساتھ پھیپھڑے خود کو نئی صورت حال کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور سانس کے عمل میں حصہ لینے والے عضلات کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح پھیپھڑوں میں ہوا بھرنے کا عمل خود بخود بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ورزش کے دوران جسم کے تمام حصوں میں دوران خون تیز ہو جاتا ہے چنانچہ ہر حصے میں آکسیجن کی سپلائی بڑھ جاتی ہے۔
جسمانی افعال میں تبدیلیاں
ورزش میں باقاعدگی آنے کے ساتھ انسانی جسم خود کو اعضا کی بڑھتی ہوئی فعلیاتی ضروریات کے مطابق بتدریج ڈھالتا چلا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں قدرتی طور پر ایک تعدیلی نظام موجود ہے جس کی بدولت ہمارا جسم اپنے اندر ضرورت کے مطابق تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس عمل کو کنڈیشننگ (Conditioning) کہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وضاحت کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے۔
نبض کی رفتار میں سستی
جو لوگ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں ان کی نبض کی رفتار عموماً سست ہوتی ہے۔ نبض کی معمول کی رفتار 60-70 ضربات یا اوسطاً 72 ضربات فی منٹ ہوتی ہے۔ ورزش کرنے والے افراد کی نبض کی رفتار 50ضربات فی منٹ مشاہدے میں آتی ہے۔ ورزش کے دوران نبض کی شرح رفتار میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ ورزش کی شدت کی مناسبت سے ہوتا ہے لیکن متوقع حدود کے اندر رہتا ہے۔ ورزش کے عادی شخص کے دل کی دھڑکن میں تیزی یا سانس پھولنے کی شکایت نہیں کرتا۔
عضلہ قلب کی مضبوطی
سخت ورزش سے عضلہ قلب کی نسیجوں یا بافتوں کی جسامت بڑھ جاتی ہے جس سے دل کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ نتیجتاً دل جسمانی ضرورت کے مطابق زیادہ مقدار میں خون پمپ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
عضلاتی طاقت میں اضافہ
باقاعدگی سے کسی مخصوص ورزش میں حصہ لینے والے عضلات میں سختی اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور ان کی جسامت بڑھ جاتی ہے۔
چربی میں کمی
ورزش کرنے سے جسم کو فاضل چربی سے نجات مل جاتی ہے۔جسم میں چربی کی تقسیم نئے سرے سے عمل میں آتی ہے جس سے جسم خوبصورت،صحتمند دکھائی دیتا ہے۔
ورزش کی اقسام
ورزش گھر کے اندر بھی کی جا سکتی ہے اور گھر سے باہر کھلی فضا میں بھی۔ کھلی فضا میں کی جانے والی ورزشوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ ورزشیں ماہرین کی ہدایات کے مطابق کی جاتی ہیں۔
کن لوگوں کو ورزش کی ضرورت ہے؟
ورزش گروہی طور پر کھیلوں کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے بعض ورزشیں بغیر کسی کی مدد کے اکیلے بھی کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ”پیراکی، جاگنگ، ویٹ لفٹنگ وغیرہ۔ جو لوگ باقاعدگی سے کھیلوں خصوصا“ کسرتی کھیلوں (Athletics) میں حصہ لیتے ہیں ان کی کافی حد تک ورزش ہو جاتی ہے۔ لہٰذا انہیں مزید ورزش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن وہ لوگ جو بیٹھے رہنے کے عادی ہیں یا ان کے کام کی نوعیت انہیں جسمانی فعالیتوں سے باز رکھتی ہے، ان کیلئے ورزش کرنا ضروری ہے۔ جسمانی بے عملی نہ صرف امراض قلب کو دعوت دیتی ہے بلکہ بعض دیگر عوارض مثلاً، فربہی، وجع المفاصل (جوڑوں کا درد) اور تنفسی پیچیدگیوں کا باعث بھی بنتی ہے۔
ورزش کی نوعیت
دل کوصحتمند اور اچھی حالت میں رکھنے کیلئے باقاعدگی سے ورزش کرنا نہایت ضروری ہے۔ تاہم ورزش کی شدت، اس کے اوقات اور اس کی نوعیت مختلف افراد کیلئے مختلف ہو سکتی ہے جس کاانحصار مختلف عوامل مثلاً عمر، جنس، وزن، پیشے، جسمانی صلاحیت، عضلاتی عوارض، ہڈیوں کے نقائص، گنٹھیا، دل یا سینے کے مزمن امراض، عصبی یا نفسیاتی پیچیدگیوں وغیرہ پر ہے۔ چند ایک مستثنیات سے قطع نظر اکثر لوگ بے خوف و خطر جسمانی ورزش شروع کرسکتے ہیں۔ انہیں اپنے لیے صرف ورزش کی قسم کا انتخاب کرنا ہو گا اور یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان کیلئے کتنی سخت ورزش موزوں رہے گی۔ مناسب ورزش کا مطلب ایسی ورزش ہے جسے کرنے کے بعد انسان یہ محسوس کرے کہ اس نے خاصی محنت کر لی ہے اور اب وہ تھک گیا ہے۔
پیدل چلنا
کسرتی کھیلوں میں حصہ نہ لینے والے افراد کیلئے شاید سب سے آسان، مفید اور کم خرچ ورزش پیدل چلنا ہے۔ اس کیلئے کسی قسم کے سامان یا آلات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ضرورت ہوتی ہے تو صرف ارادے کی اور آرام دہ جوتوں کی۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 872
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں